سعودی دارالحکومت ریاض کی عدالت کے ذرائع نے بتایا ہے کہ انسانی حقوق کے لیے سرگرم ان سعودی خواتین نے ججوں کو بتایا کہ نو ماہ کی تفتیش کے دوران انہیں تشدد اور متعدد مرتبہ جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ان گیارہ خواتین کو بین الاقوامی ذرائع ابلاغ اور انسانی حقوق کی تنظیموں سے رابطوں سے متعلق کئی الزامات کا سامنا ہے۔
سماعت کے دوران کسی صحافی اور غیر ملکی سفارت کار کو مبصر کے طور پر عدالتی کمرے میں موجود رہنے کی اجازت نہیں ہے۔ خبر رساں ادارے اے پی اور روئٹرز کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق ان خواتین نے بتایا کہ انہیں بجلی کے جھٹکے دیے گئے، کوڑے مارے گئے اور جنسی استحصال کا نشنانہ بنایا گیا۔ تاہم دوسری جانب سے ریاض حکومت نے زیادتی سے متعلق تمام الزامات کو مسترد کر دیا ہے۔
الزام کے بغیر گرفتاری
یہ تمام خواتین سعودی عرب میں حقوق نسوان اور ان کے لیے سخت قوانین کے خلاف آواز اٹھا رہی تھیں۔ ان میں مرد کی سرپرستی کے نظام اور اسی طرح کے دیگر قدامت پسندانہ قوانین شامل ہیں۔ اسی بنا پر انہیں بغیر فرد جرم عائد کیے گزشتہ برس مئی سے حراست میں رکھا گیا تھا۔
ان خواتین میں انسانی حقوق کی کارکن لجین الھذلول، یونیورسٹی پروفیسر ھتون الفاسی اور بلاگر ایمان النفجان نمایاں ہیں۔ الھذلول کے بھائی ولید نے فرمانروا محمد بن سلمان کے ایک مشیر سعود القحطانی پر الزام عائد کیا کہ ان کی موجودگی میں خواتین کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
القحطانی کو گزشتہ برس اکتوبر میں استنبول میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ان کے مبینہ کردار کی وجہ سے ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا تھا۔ ولید نے امریکی نشریاتی ادارے ’سی این این‘ کو بتایا کہ محمد بن سلمان کے ایک اہم مشیر نے میری بہن کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی دھمکی دی اور کہا کہ وہ اس کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔
یورپی یونین کے اٹھائیس ممالک سمیت کوئی تین درجن ممالک نے سعودی حکام سے ان خواتین کو فوری طور پر رہا کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ امکان ہے کہ بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے شاید ان خواتین کو رہا یا معاف کر دیا جائے۔
ڈی ڈبلیو
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2UmLTZK
EmoticonEmoticon