
امریکی حکومت کا مذکورہ اقدام بظاہر عالمی عدالت کے خلاف کریک ڈاؤن معلوم ہوتا ہے.
پراسیکیوٹر فیٹو بین سودا کے دفتر سے جاری ہونے والے بیان میں ویزا منسوخی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ’بین الاقوامی عدالت کو تشکیل دینے والے معاہدے ’دی روم اسٹیچو‘ کے تحت ان کے پاس آزادانہ اور غیر جانبداری کا مینڈیٹ ہے‘۔
بیان میں کہا گیا کہ پراسیکیوٹر اور ان کا دفتر اپنے فرائض کی انجام دہی اسی تندہی کے ساتھ پیشہ وارانہ طریقے سے جاری رکھے گا۔
ان کے دفتر کی جانب سے مزید کہا گیا کہ ویزے کی منسوخی اجلاس میں شرکت کے لیے امریکا آمد پر نظر انداز نہیں ہوگی جس میں اقوامِ متحدہ سلامتی کونسل کی باقاعدہ بریفنگز بھی شامل ہے۔
واضح رہے کہ امریکا کبھی بھی آئی سی سی کا رکن نہیں رہا، یہ عدالت ان سنگین جرائم کے ٹرائل کا آخری فورم ہے جن میں ممالک انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے تصدیق سامنے آئی تھی کہ فیٹو بین سودا آئندہ ماہ سیکیورٹی کونسل کو لیبیا کی تحقیقات کے حوالے سے بریفنگ دیں گی۔
امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب سے ویزا منسوخی کی تصدیق کرتے ہوئے تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا البتہ یہ ضرور کہا کہ امریکا اپنی سالمیت اور اپنے عوام کو غیر منصفانہ تحقیقات اور عالمی عدالتِ جرائم کے پراسیکیوشن سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔
خیال رہے کہ امریکی سیکریٹری اسٹیٹ مائیک پومپیو نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ واشنگٹن افغانستان اور دیگر جگہوں پر امریکی فوج کے جنگی جرائم اور دیگر استحصال کی تحقیقات کرنے کے لیے آئی سی سی کے ملازمین کو ویزا دینے سے انکار یا
ان کا ویزامنسوخ کردے گا اور یہی اقدام ان کے خلاف بھی ہوسکتا ہے جو اسرائیل کے خلاف کچھ کریں گے۔
خیال رہے کہ آئی سی سی پراسیکیوٹر نے افغانستان میں امریکی فوج کے ممکنہ جنگی جرائم کی تحقیقات کے لیے درخواست دائر کی تھی دوسری جانب فلسطین نے بھی اسرائیل کے خلاف کیسز کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔
اس وقت پومپیو نے یہ بھی کہا تھا کہ ان کا اقدام عالمی عدالت کو امریکی اور اتحاد فوجیوں کے تشدد اور جنگی جرائم کی تحقیقات کے ذریعے امریکی سلامتی کے معاملات میں مداخلت سے روکنے کے لیے ضروری ہے۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں http://bit.ly/2G56eeh
No comments:
Post a Comment