زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست مسترد

زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست مسترد
لاہورہائی کورٹ نے زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کردی ہے۔

تفصیلات کے مطابق لاہورہائی کورٹ میں زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست پر سماعت ہوئی، جسٹس سردار محمد شمیم خان اور جسٹس شہباز علی رضوی پر مشتمل ڈویژنل بینچ نے سماعت کی، مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے کے لیے مقتولہ کے والد کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت کے دوران صوبائی سیکرٹری داخلہ کی جانب سے لا افسرنے جواب داخل کرایا،سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ قانون میں کوئی ایسی شق نہیں جس کے تحت سرعام پھانسی دی جاسکے، سرعام پھانسی کے معاملے پرسپریم کورٹ فیصلہ جاری کرچکی ہے۔جس پر لاہور ہائی کورٹ کے جج نے زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست مسترد کردی۔

گذشتہ روز لاہور ہائیکورٹ میں زینب قتل کیس کے مجرم عمران کو سرعام پھانسی دینے کی درخواست پر پنجاب حکومت کو نوٹس جاری کیا تھا،درخواست میں معصوم پری زینب کے والد حاجی امین انصاری کی جانب سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ قانون میں سرعام پھانسی دینے کی گنجائش موجود ہے،عمران علی کو سرعام پھانسی دینے سے ایسے مجرمانہ فعل دوبارہ نہیں ہوں گے، لہذا عدالت عالیہ مجرم کو نشان عبرت بنانے کے لیے سرعام پھانسی کا حکم دے۔

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مقتولہ زینب کے والد حاجی امین انصاری کا کہنا تھا کہ وزیراعظم سے گزارش ہے کہ مجرم کی پھانسی میں تاخیر نہ کی جائے ہمارا مطالبہ ہے زینب کے قاتل عمران کو سر عام عبرت کا نشان بنایا جائے، کیونکہ زینب بھی قوم کی بیٹی تھی۔

دوسری جانب زینب زیادتی و قتل کیس کے مجرم عمران کی خاندان سے آخری ملاقات کرادی گئی ہے، جیل حکام کے مطابق عمران کی اہل خانہ پینتالیس منٹ جاری رہی۔
جیل حکام کی جانب سے جاری کی گئی ہدایات کے مطابق آخری ملاقات کے لیے پچاس افراد کو خصوصی اجازت دی گئی تھی۔

یاد رہے کہ بارہ اکتوبر کوانسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج شیخ سجاد احمد نے قصور کی ننھی زینب کے قاتل عمران کے ڈیتھ وارنٹ جاری کئے تھے، جس کے مطابق زینب سمیت7 بچیوں کے قاتل کو 17اکتوبر بدھ کی علی الصبح سینٹرل جیل لاہور میں تختہ دار پر لٹکایا جائے گا۔

چھ اکتوبر چیف جسٹس نے زینب کے قاتل کی سزائےموت پرعمل درآمد نہ ہونے پرازخودنوٹس لیتے ہوئے رجسٹرار سپریم کورٹ کو مجرم کی سزا پر عملدرآمد رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

چیف جسٹس پاکستان نے استفسار کیا کہ مجرم عمران علی کی سزا پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا گیا؟ خاتون وکیل نے بتایا کہ مجرم کی رحم کی اپیل وزارت داخلہ نے صدر مملکت کو بھجوائی ہے۔یاد رہے 17 فروری کو انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مجرم عمران کو چار مرتبہ سزائے موت، عمر قید، سات سال قید اور 32 لاکھ روپے جرمانے کی سزائیں سنائی تھیں، عدالتی فیصلے پر زنیب کے والد آمین انصاری نے اطمینان کا اظہار کیا اور اس مطالبے کو دوہرایا کہ قاتل عمران کو سر عام پھانسی دی جائے۔

مجرم کو مجموعی طور پر 21 بار سزائے موت کا حکم جاری کیا گیا ، کائنات بتول کیس میں مجرم کو3 بارعمر قید،23سال قید کی سزا اور 25 لاکھ جرمانہ جبکہ 20 لاکھ 55 ہزار دیت کابھی حکم دیا تھا۔

عدالت5 سالہ تہمینہ، 6 سالہ ایمان فاطمہ کا فیصلہ بھی جاری کرچکی ہے، 6 سال کی عاصمہ،عائشہ لائبہ اور 7 سال کی نور فاطمہ کیس کا بھی فیصلہ دیا جاچکا ہے۔ زینب کے قاتل نے سپریم کورٹ میں سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی ،جسے عدالت نے مسترد کردی تھی، جس کے بعد عمران نے صدر مملکت سے رحم کی اپیل کی تھی۔

ننھی زینب کے والد امین انصاری نے صدر مملکت ممنون حسین کو خط لکھ کر درخواست کی ہے کہ زینب کے قاتل عمران کی رحم کی اپیل مسترد کردی جائے۔خیال رہے زینب قتل کیس پاکستان کی تاریخ کا سب سے مختصرٹرائل تھا، جو چالان جمع ہونے کے سات روز میں ٹرائل مکمل کیا گیا۔

انسداد دہشت گردی کی عدالت میں زینب قتل کیس کے ملزم عمران کے خلاف جیل میں روزانہ تقریباً 10 گھنٹے سماعت ہوئی اور اس دوران 25 گواہوں نے شہادتیں ریکارڈ کروائیں۔اس دوران مجرم کے وکیل نے بھی اس کا دفاع کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد اسے سرکاری وکیل مہیا کیا گیا۔

واضح رہے کہ رواں برس جنوری میں ننھی زینب کے بہیمانہ قتل نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ننھی زینب کو ٹیوشن پڑھنے کے لیے جاتے ہوئے راستے میں اغوا کیا گیا تھا جس کے دو روز بعد اس کی لاش ایک کچرا کنڈی سے برآمد ہوئی،زینب کو اجتماعی زیادتی، درندگی اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کی تاب نہ لاتے ہوئے وہ دم توڑ گئی تھی۔



from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2RMyzdf


EmoticonEmoticon