فلسطینیوں نے 'دی گریٹ مارچ آف ریٹرن' کے نام سے تحریک شروع کر دی

 فلسطینیوں نے 'دی گریٹ مارچ آف ریٹرن' کے نام سے تحریک شروع کر دی
اسرائیلی سرحد پر ہونے والے ہفتہ وار احتجاج کے سلسلے کا ایک برس مکمل ہونے پر ہزاروں فلسطینی باشندے غزہ میں مظاہرے کر رہے ہیں۔ یہ مظاہرے فلسطینی پناہ گزینوں کے اپنے آبائی گھروں میں واپس جانے کے حق کی تائید میں کیے گئے ہیں۔ فلسطینیوں کے یہ آبائی گھر اسرائیل میں واقع ہیں۔

مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا اور ٹائروں کو آگ لگائی گئی جواباً اسرائیل نے آنسو گیس کی شیلنگ اور فائرنگ کی ہے۔ فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں ایک شخص ہلاک ہوا ہے۔

یہ مظاہرے فلسطینی پناہ گزینوں کے اپنے آبائی گھروں میں واپس جانے کے حق کی تائید میں کیے گئے ہیں۔ فلسطینیوں کے یہ آبائی گھر اسرائیل میں واقع ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق مظاہروں کے اِس سلسلے میں دسمبر 2018 تک ایک اسرائیلی اور 189 فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔

اقوام متحدہ کی ایک تفتیش نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ شاید اسرائیلی فوجیوں نے مظاہروں کے دوران جنگی جرائم کا ارتکاب کیا ہو۔ تاہم اسرائیل اس الزام کو مسترد کرتا ہے۔

اسرائیل ڈیفنس فورسز (آئی ڈی ایف) کے مطابق مظاہرین کی تعداد 40 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

آئی ڈی ایف کا کہنا ہے مظاہرین کی جانب سے سرحد پر نصب حفاظتی باڑ پر دھماکہ خیز مواد پھینکا گیا اور اسرائیلی فوج نے ہنگامہ آرائی کرنے والوں کو بھگانے کے لیے اقدامات کے طور پر گولیاں چلائیں۔

فلسطین حکام کے مطابق ایک 17 برس کا لڑکا اس واقعے میں ہلاک ہوا ہے جبکہ درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔

حماس کا کہنا ہے کہ وہ مظاہرین کو سرحد کی حفاظتی باڑ سے محفوظ فاصلے پر رکھنے کی کوشش کرے گا جبکہ اقوام متحدہ اور مصر مزید کشیدگی کو روکنے کے لیے ثالثی کا کردار بھی ادا کر رہے ہیں۔

یہ مظاہرے کشیدگی سے بھرپور ہفتے کے بعد شروع ہوئے ہیں جس کے دوران فلسطینی عسکریت پسندوں کی جانب سے اسرائیل پر راکٹ برسائے گئے جبکہ اسرائیلی فضائیہ نے اس کا جواب غزہ میں درجنوں مقامات پر فضائی حملے کر کے کیا۔

30 مارچ 2018 سے فلسطینی باشندے ان مظاہروں میں حصہ لے رہے ہیں۔ اس مہم کو 'دی گریٹ مارچ آف ریٹرن'، یا واپسی کے لیے عظیم مارچ کا نام دیا گیا ہے۔

اسرائیلی حکومت حماس کو ایک دہشت گرد گروپ قرار دیتی ہے اور اس کے مطابق حماس اس مظاہروں کو اسرائیل کی حدود میں داخل ہونے اور عسکری کارروائیوں کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔

اسرائیل نے فوجیوں کو سرحد کے ساتھ تعینات کیا ہے اور ان کو احکامات دیے گئے ہیں کہ فائرنگ صرف اس وقت کی جائے جب ایسا کرنا انتہائی ناگزیر ہو یا جب کوئی خطرہ منڈلا رہا ہو۔

اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل نے اس حوالے سے ایک انکوائری کمیشن بھی بنایا ہے۔

کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ہلاک ہونے والے 189 افراد میں 35 بچے، تین امدادی کارکن اور دو صحافی بھی شامل ہیں۔

اس انکوائری کے مطابق اس بات کے قابلِ قبول شواہد موجود ہیں کہ اسرائیلی نشانچیوں نے بچوں، امدادی کارکنان اور صحافیوں کو نشانہ بنایا۔

ان مظاہروں کے دوران چار اسرائیلی فوجی بھی زخمی ہوئے ہیں۔ کمیشن کے مطابق مظاہروں کی جگہ سے دور ایک اسرائیلی فوجی کے ہلاک ہونے کی خبر بھی ہے۔

اسرائیل کے قائم مقام وزیر خارجہ نے کمیشن کی اس رپورٹ کو مسترد کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہیومن رائٹس کونسل نے ایک مرتبہ پھر ایک ایسی رپورٹ مرتب کی ہے جو کہ جھوٹ پر مبنی، مخالفانہ اور اسرائیل کے خلاف تعصب سے بھری ہوئی ہے۔

کوئی بھی اسرائیل کو اپنے دفاع کرنے، اپنے شہریوں اور سرحد کی حفاظت کرنے کے حق سے محروم نہیں کر سکتا۔



from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2YGoLoH


EmoticonEmoticon