ایک روز میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں 3.8 فیصد کمی دیکھی گئی جبکہ مئی 2018 کے بعد سے یہ 35 فیصد کمی ہے کیونکہ اس وقت ڈالر 121 روپے میں ٹریڈ ہورہا تھا۔
واضح رہے کہ مقامی کرنسی میں اتنی حیران کن کمی اسٹیٹ بینک کے گورنر کی جانب سے اس بات کی یقین دہانی کے تعین کے بعد سامنے آئی۔
گورنر اسٹیٹ بینک کی جانب سے یہ یقین دہائی کروائی گئی تھی کہ ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کی بنیادوں پر ہوں گے جبکہ ڈالر کا آزادنہ اڑنا ملک کی معیشت کے لیے موزوں نہیں ہے۔
’مرکزی بینک کہیں نظر نہیں آرہا‘
ایک سینئر بینکر کا کہنا تھا کہ ’یہاں کوئی اسٹیٹ بینک نہیں اور ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کے عدم استحکام کو ٹھیک کرنے کے لیے کوئی مداخلت نہیں‘۔
واضح رہے کہ اسٹیٹ بینک کے نئے گورنر نے اپنی پہلی پریس کانفرنس میں یقین دہانی کروائی تھی کہ اگر مارکیٹ میں عدم استحکام ہوا تو اسٹیٹ بینک ایسکچینج ریٹ میں مداخلت کرے گا، ایکسچینج ریٹ مارکیٹ کی بنیادوں پر ہوں گے۔
ایکسچینج ریٹ میں بدستور تبدیلی نہیں تھی کیونکہ ایک ہفتے سے زائد سے ڈالر 157 روپے پر موجود تھا جبکہ مارکیٹ کا خیال تھا کہ قریب مستقبل میں روپے کے مقابلے میں ڈالر کم ہوسکتا ہے۔
دوسری جانب ایکسچینج کمپنی ایسوسی ایشن پاکستان کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ بینک رقوم بنارہے ہیں۔
یہ گزشتہ 8 سے 10 روز میں ایک بڑی خریداری کی توقع کرتے ہوئے ڈالر خرید رہے اور انہوں نے آج 25 کروڑڈالر تک فروخت کردیا۔
انہوں نے کہا کہ مارکیٹ میں ڈالر کی کوئی کمی نہیں جبکہ اوپن مارکیٹ بینکوں کو یومیہ اوسطاً 2 سے ڈھائی کروڑ ڈالر پر سرپلس ڈالر فروخت کررہی ہے۔
ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ’مجھے یقین ہے کہ مقامی کرنسی میں حالیہ کمی معاشی منیجرز کی پالیسی ہے لیکن یہ جاننا مشکل ہے کہ اس کمی سے کس کو فائدہ پہنچ رہا ہے‘۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2NgrAes
EmoticonEmoticon