سی این این کی رپورٹ کے مطابق امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم ان جونگ نے ویتنام کے دارالحکومت ہنوئی میں دوسری ملاقات کی۔ ہنوئی میں ملاقات کے وقت دونوں ممالک کے سربراہان نے مصافحہ کیا جس کے بعد انہوں نے 30 منٹ کے مختصر دورانیے پر مشتمل نجی ملاقات میں بات چیت کی۔
کم جونگ ان سے ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے امریکی صدر نے کہا کہ وہ اس ملاقات کو ایک کامیاب سربراہی اجلاس کے طور پر دیکھ رہے ہیں جس پر کم جونگ ان نے کہا کہ ’ ہم تمام رکاوٹوں پر قابو پانے میں کامیاب ہوگئے اور آج ہم یہاں موجود ہیں‘۔
شمالی کوریا کے سربراہ کی بات کے جواب میں امریکی صدر نے کہا کہ ’ چیئرمین کم کے ساتھ ویتنام میں ہونا ایک اعزاز ہے‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’ آپ(کم جونگ ان) کے ساتھ ہونا عظیم بات ہے، ہمارا پہلا سربراہی اجلاس بہت کامیاب تھا‘۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’کچھ لوگ اس (شمالی کوریا کے جوہری ہتھیاروں کی تخفیف) میں تیزرفتاری دیکھنا چاہتے تھے لیکن ہم جس طریقے سے یہ کررہے ہیں میں اس سے خوش ہوں ‘۔
امریکی صدر نے کہا کہ ’ دو سربراہان کے مابین تعلق در حقیقت اچھا ہے‘۔ اس دوران صحافیوں کی جانب سے کیے گئے کسی سوال کا جواب نہیں دیا گیا جن میں امریکی صدر سے کیے گئے اکثر سوالات ٹرمپ کے سابق وکیل مائیکل کوہن کے حالیہ انکشافات سے متعلق تھے۔
ہنوئی میں کم جونگ ان سے ابتدائی بات چیت میں ڈونلڈ ٹرمپ نے ان سے شمالی کوریا کے بہتر مستقبل کا وعدہ کیا۔
امریکی صدر نے کہا کہ ’ میں سمجھتا ہوں کہ آپ کے ملک میں بے پناہ اقتصادی قوت ہے‘۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے کم جونگ ان کو بتایا کہ ’ میں سمجھتا ہوں کہ آپ اپنے ملک کا بہتر مستقبل بنائیں گے، آپ ایک عظیم رہنما ہیں، ہم ایسا کرنے میں آپ کی مدد کریں گے‘۔
امریکی صدر کے ہمراہ صحافیوں سے خطاب کرتے ہوئے کم جونگ ان نے کہا کہ ’ گزشتہ جون اور موجودہ وقت کے درمیان ہم نے بہت سوچا ، کوششیں کیں اورصبر کیا‘۔ انہوں نے کہا کہ سنگاپور میں ملاقات کے بعد کے عرصے میں بیرونی دنیا کی جانب سے امریکا-شمالی کوریا تعلق کو غلط سمجھا گیا۔ کم جونگ نے کہا کہ امید ہے ہنوئی اجلاس کے نتائج کا خیرمقدم کیا جائے گا۔
شمالی کوریا کے سربراہ نے کہا کہ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ سے 30 منٹ کی ملاقات میں بہت دلچسپ گفتگو‘ کی۔ بعد ازاں ہنوئی میں غیر رسمی ڈنر کے آغاز پر ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان پرسکون اور بے تکلف نظر آئے۔
امریکی اسٹیٹ سیکریٹری اور قائم مقام چیف آف اسٹاف مک ملوانے کے ہمراہ گول میز پر بیٹھے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ نے فوٹوگرافرز کو ان کی اور کم جونگ ان کی اچھی تصاویر لینے کا کہا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ کل ہمارا ایک مصروف ترین دن ہوگا،ہمارا تعلق بہت خاص ہے‘۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ سینڈرز کے مطابق ’ ملاقات کی حساسیت کو مدنظر کرتے ہوئے ہم نے ڈنر میں شریک صحافیوں کی تعداد محدود کی ہے لیکن اس بات کو بھی یقینی بنایا ہے کہ فوٹوگرافرز ، ٹی وی، ریڈیو اور پرنٹ کےنمائندگان موجود ہوں‘۔
امریکی صدر سے جزیرہ نما کوریا میں جوہری ہتھیاروں کا استعمال ترک کرنے کے موقف سے پیچھے ہٹنے سے متعلق پوچھا گیا جس پرانہوں نے کہا کہ وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
کوریا کے ساتھ کشیدگی کے خاتمے سے متعلق ایک علیحدہ سوال کے جواب میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’ ہم دیکھیں گے‘۔
دونوں ممالک کے سربراہان 28 فروری کو دو طرفہ معاملات پر توسیعی ملاقات کریں گے جس کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ شام میں واشنگٹن روانہ ہوجائیں گے۔
گزشتہ روز شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے مرحلے کی ملاقات کے لیے ویتنام پہنچے تھے جس میں پیانگ یانگ کے جوہری پروگرام کو ختم کرنے سے متعلق اہم اقدامات لیے جانے کے امکانات ہیں۔
کم جونگ ان بذریعہ خصوصی ٹرین 4 ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرکے ڈھائی روز میں ویت نام پہنچے جہاں انہیں فوج کی جانب سے گارڈ آف آنر پیش کیا گیا تھا جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ خصوصی طیارے ایئر فورس ون سے ہنوئی پہنچے تھے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس 12 جون کو سنگاپور کے ایک شاندار ہوٹل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان نے ملاقات کی تھی۔
اس ملاقات کے بعد شمالی کوریا کے 70ویں یوم آزادی کے موقع پر جوہری تنصیبات کی نمائش سے گریز کیا گیا تھا۔ تاہم شمالی کوریا کی جانب سے جوہری اور بیلسٹک میزائل کی تخفیف کے کے چند واضح اقدامات کے بعد امریکی صدر کو تنقید کا سامنا تھا۔
بعد ازاں گزشتہ برس دسمبر میں شمالی کوریا نے امریکی کی جانب سے عائد کی گئی حالیہ پابندیوں کی مذمت کرتے ہوئے خبردار کیا تھا کہ واشنگٹن کے اقدامات سے جزیرہ نما کوریا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا۔
جولائی 2017 میں شمالی کوریا کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) کا کامیاب تجربہ کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا گیا تھا۔ بعد ازاں امریکا نے شمالی کوریا کے میزائل تجربے کے جواب میں اسے خبردار کرنے کے لیے جنوبی کوریا کے ساتھ مشترکہ طور پر ایک میزائل تجربہ کیا تھا۔
امریکی صدر نے بعدازاں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پیونگ یانگ کو اپنے ہتھیاروں کی وجہ سے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا کہ شمالی کوریا کے لیے بہتر ہے کہ وہ اب امریکا کو مزید دھمکیاں نہ دے ورنہ اسے ایسے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑ گا جو آج تک دنیا نے نہیں دیکھا۔
امریکی صدر کے اس بیان کے بعد شمالی کوریا نے ڈونلڈ ٹرمپ کو ’نامعقول‘ شخص قرار دے کر بحر الکاہل میں امریکی فوجی اڈے ’گوام‘ کو نشانہ بنانے کے منصوبے پر ڈٹے رہنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔
بعد ازاں شمالی کوریا کے سپریم کمانڈر کم جونگ ان نے امریکی جزیرے گوام کو نشانہ بنانے کا منصوبہ ترک کرتے ہوئے امریکا کو آئندہ شمالی کوریا مخالف بیان دینے پر خبردار کرتے ہوئے سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی (یو این جی اے) کے 72 ویں سالانہ اجلاس میں خطاب کرتے ہوئےامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان کو ان کے عرفی نام ’راکٹ مین‘ سے مخاطب کرتے ہوئے دھمکی دی کہ اگر انہوں نے جوہری ہتھیاروں کی پیداوار کو نہیں روکا تو امریکا شمالی کوریا کو 'مکمل طورپر تباہ' کردے گا۔
نومبر 2017 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے کِم جونگ اُن کے قد اور وزن کا مذاق اڑاتے ہوئے انہیں ’چھوٹا راکٹ مین‘ قرار دیا، جس کے جواب میں شمالی کوریا کے رہنما نے امریکی صدر کو ’پاگل‘ اور ’احمق‘ قرار دیا تھا۔
from سچ ٹی وی اردو - تازہ ترین خبریں https://ift.tt/2TimCzv
EmoticonEmoticon